پہلی اور دوسری عالمی جنگ: عالمی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ

0


پہلی اور دوسری عالمی جنگ: عالمی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ


  •    پہلی عالمی جنگ
  •   دوسری عالمی جنگ
  •   جنگ عظیم اول
  •   جنگ عظیم دوم
  •   جنگوں کے اسباب
  •   جنگوں کے اثرات
  •   آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ
  •   معاہدہ ورسائی
  •   ایڈولف ہٹلر
  •   نازی جرمنی
  •   اقوام متحدہ
  •   سرد جنگ
  •   سامراجیت
  •   قوم پرستی 
  •   ایٹمی ہتھیار
  •   عالمی تاریخ
  •   تاریخ جنگیں


پہلی اور دوسری عالمی جنگ: عالمی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ

پہلی اور دوسری عالمی جنگیں انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ تباہ کن اور دور رس واقعات ہیں۔ ان دونوں جنگوں نے دنیا کے جغرافیائی، سیاسی اور سماجی نقشے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ کروڑوں جانیں ضائع ہوئیں، سلطنتیں ختم ہوئیں، اور نئی عالمی طاقتیں ابھریں۔ ان جنگوں کے آغاز کے اسباب پیچیدہ تھے، جن میں قوم پرستی، سامراجیت، فوجی قوت میں اضافہ، اور عالمی کشیدگی تھی۔     

  

پہلی اور دوسری عالمی جنگ
"پہلی اور دوسری عالمی جنگ"



پہلی عالمی جنگ (1914-1918): ایک عظیم تباہی کا آغاز

پہلی عالمی جنگ، جسے "تمام جنگوں کو ختم کرنے والی جنگ" بھی کہا جاتا ہے، جولائی 1914 میں شروع ہوئی اور نومبر 1918 تک جاری رہی۔ اس میں دنیا کے بڑے ممالک دو بڑے دھڑوں میں تقسیم ہو گئے: اتحادی قوتیں (برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، جاپان، اور بعد میں امریکہ) اور مرکزی قوتیں (جرمنی، آسٹریا ہنگری، سلطنت عثمانیہ، اور بلغاریہ)۔

جنگ کے عالمی اسباب:

  سامراجیت اور نوآبادیاتی مقابلہ: 19ویں صدی کے آخر تک، یورپی طاقتیں دنیا بھر میں نوآبادیاں قائم کر کے اپنی سلطنتیں بڑھا رہی تھیں۔ اس نے وسائل اور بازاروں پر قبضے کے لیے شدید مقابلہ پیدا کیا، خاص طور پر افریقہ اور ایشیا میں۔

  عسکری قوت میں اضافہ (Militarism): یورپی ممالک ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے اپنی فوجی طاقت اور ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ جرمنی کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت نے برطانیہ کو خطرے میں ڈال دیا۔

  قوم پرستی (Nationalism): یورپ میں مختلف قوموں کے درمیان شدید قوم پرستی کے جذبات ابھر رہے تھے۔ یہ خاص طور پر بلقان کے علاقے میں واضح تھا، جہاں مختلف نسلی گروہ آزادی یا بڑے ممالک سے الحاق چاہتے تھے۔ آسٹریا ہنگری اور سلطنت عثمانیہ جیسی کثیر القومی سلطنتوں میں قوم پرستی سے بغاوتیں ہو رہی تھیں۔

  معاہدوں کا پیچیدہ نظام: یورپی طاقتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رکھے تھے۔ اگر ایک ملک پر حملہ ہوتا تو اس کے اتحادی بھی جنگ میں شامل ہو جاتے۔ یہ معاہدات تنازع کو پھیلانے کا باعث بنے۔

  سراجیوو کا واقعہ (فوری سبب): 28 جون 1914 کو آسٹریا ہنگری کے ولی عہد آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کو سراجیوو (بوسنیا) میں ایک سرب قوم پرست طالب علم نے قتل کر دیا۔ آسٹریا ہنگری نے سربیا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور روس کی حمایت کے باوجود سربیا پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں معاہدوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بڑے ممالک جنگ میں کود پڑے۔

پوری دنیا پر گہرے اثرات:

  انسانی جانوں کا ضیاع: تقریباً 1.7 کروڑ فوجی اور شہری ہلاک ہوئے، اور 2 کروڑ سے زیادہ زخمی ہوئے۔

  معاشی تباہی: جنگ میں شامل ممالک کی معیشتیں تباہ ہو گئیں، انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا اور کئی دہائیوں تک معاشی بحران رہا۔

  سیاسی نقشے کی تبدیلی: چار بڑی سلطنتیں (آسٹریا ہنگری، روس، سلطنت عثمانیہ اور جرمن سلطنت) ختم ہو گئیں اور ان کی جگہ نئے ممالک بنے۔

  معاہدہ ورسائی اور اس کے نتائج: فاتح قوتوں نے جرمنی پر سخت شرائط عائد کیں، جس نے جرمن عوام میں انتقام کا جذبہ پیدا کیا اور دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھی۔

  اقوام متحدہ کا قیام: عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے لیگ آف نیشنز (اقوام متحدہ کی پیشرو) قائم کی گئی، حالانکہ یہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔

دوسری عالمی جنگ (1939-1945): تاریخ کی سب سے بڑی جنگ

دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939 میں شروع ہوئی اور ستمبر 1945 تک جاری رہی۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی اور مہلک ترین جنگ تھی، جس میں دنیا کے تقریباً ہر بڑے ملک نے حصہ لیا۔ اس میں دو بڑے اتحاد تھے: اتحادی افواج (سوویت یونین، امریکہ، برطانیہ، چین اور فرانس) اور محوری قوتیں (جرمنی، اٹلی اور جاپان)۔

جنگ کے عالمی اسباب:

  معاہدہ ورسائی کی ناانصافی: پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی پر عائد کردہ سخت شرائط نے نازی پارٹی اور ایڈولف ہٹلر کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا۔ ہٹلر نے جرمنی کے "کھوئے ہوئے وقار" کو بحال کرنے اور اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کا عزم کیا۔

  قوم پرستی اور توسیع پسندی: ہٹلر کی نازی ازم، مسولینی کی فاشزم اور جاپان کی سامراجیت نے توسیع پسندی کو فروغ دیا۔ جرمنی نے آسٹریا، چیکوسلواکیہ، اور پولینڈ پر حملہ کیا، جبکہ جاپان نے چین پر حملہ کر دیا۔

  لیگ آف نیشنز کی ناکامی: لیگ آف نیشنز عالمی تنازعات کو روکنے میں ناکام رہی، کیونکہ اس کے پاس کوئی حقیقی اختیار نہیں تھا اور بڑے ممالک اس کے فیصلوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔

  اپیزمنٹ کی پالیسی (Appeasement Policy): برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہٹلر کی جارحانہ پالیسیوں کو روکنے کے بجائے انہیں مطمئن کرنے کی پالیسی نے ہٹلر کو مزید حوصلہ دیا۔

  پولینڈ پر حملہ (فوری سبب): یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا، جس کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔

پوری دنیا پر گہرے اثرات:

  بے مثال جانی نقصان: اندازاً 7 سے 8.5 کروڑ افراد (فوجی اور شہری) ہلاک ہوئے، جن میں ہولوکاسٹ کے لاکھوں یہودی بھی شامل تھے۔

  ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال: امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے، جس سے دنیا میں ایٹمی جنگ کا خوف پیدا ہوا۔

  جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں: جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا (مشرقی اور مغربی جرمنی)۔ جاپان پر امریکی قبضہ قائم ہوا، اور نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہواـ

  سرد جنگ کا آغاز: امریکہ اور سوویت یونین دو عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرے، اور ان کے درمیان نظریاتی اختلاف نے سرد جنگ (Cold War) کو جنم دیا، جو تقریباً 40 سال تک جاری رہی۔

  یورپی یونین کی بنیاد:یورپ میں مستقبل کی جنگوں کو روکنے اور معاشی تعاون کو فروغ دینے کے لیے یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی۔


تاریخ جنگیں
"تاریخ جنگیں"


نتیجہ: 

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے انسانیت کو گہرے زخم دیے۔ ان جنگوں نے دنیا کو یہ احساس دلایا کہ باہمی تعاون اور امن کے بغیر انسانیت کا بقا ممکن نہیں۔ ان کے اثرات آج بھی دنیا بھر کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر نمایاں ہیں۔ ان جنگوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ تنازعات کو مذاکرات اور سفارت کاری سے حل کیا جائے نہ کہ طاقت کے استعمال سے۔

میٹا ڈسکرپشن اور SEO کی ورڈز


  

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !